گہرے بادل
گہرے بادل
از قلم این این ایم
قسط نمبر11
آخری قسط
میں ماہ نور پر شک کیسے کر سکتا ہوں اس ماہ نور پر جسے میں نے اپنی جان سے زیادہ چاہا اس ماہ نور پرجو میری زندگی ہے میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں سب میری وجہ سے ہوا آج جو کچھ بھی ماہ نور کی اممی نے کہا وہ سب سچ تھا مجھے کسی طرح ماہ نور کو گھر واپس لانا ہو گا اور وہ بھی سب کی رضا مندی کے ساتھ
=======00=00=======
حدیب تیز رفتار گاڑی چلاتے ہوئے مسلسل ماہ نور کے بارے میں سوچ رہا تھا
0=====0000=======
ہلو حدیب
جی میں حمزہ بول رہا ہو
کون حمزہ اور یہ نمبر تو حدیب کا ہے
جی وہ حدیب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ہم اسے جناہ ہوسپیٹل لے کر جا رہے ہیں آپ جلدی وہاں پہنچیں
امی امی ماہ نور اپنی امی کے کمرے کی طرف بھاگی
کیا ہوا ماہ نور
اممی وہ حدیب کا
کیا ہوا بتاؤ تو
ماہ نور بری طرح رو رہی تھی
وہ حدیب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔
اممی مجھے حدیب کے پاس جانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب حدیب کیسے ہیں وہ ٹھیک تو ہیں نا
جی ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اب آپ دعا کریں
کیا ہم حدیب سے مل سکتے ہیں ڈاکٹر
جی ابھی نھیں کل ہم انھیں وارڈ میں شفٹ کر دیں گے پھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیب کے ابو جلدی آئیں جلدی
کیا ہوا شازیہ بیگم حدیب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا کیا کہہ رہی ہو حوش میں تو ہو
میں سچ کہہ رہی ہوں
آپ جلدی سے گاڈی نکالیں ہم ہسپتال جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا میرے بیٹے کو حدیب کی اممی ماہ نور سے مخاطب ہوئیں
حدیب کے سر پر گہری چوٹ آئی ہے ان کی حالت بہت خراب ہے یہ کہتے ہوے ماہ نور رونے لگی اور حدیب کی امی کے گلے لگ گئ جس پر حدیب کی امی بھی رونے لگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شازیہ ہم نے غلطی کی
حدیب کے ابو نے افسوس ناک لہجے میں کہا
کیا مطلب شازیہ بیگم حیران ہو کر بولیں
ہم نے ماہ نور کو گھر سے نکال کر غلطی کی دیکھا نھیں تم نے وہ کیسے حدیب کے لیے رو رہی تھی اسسے ا ہم نے اسے گھر سے نکالا تب بھی آج تک اس نے ہمارے ساتھ کوئی بد تمیزی نیھں کی اس سے اچھی بہو ہمارے لیے کوی اور نھیں ہو سکتی
آپ سہی کہہ رہے ہیں حدیب کے ابو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیب کو شفٹ کر دیا گیا ہے اب آپ ان سے مل سکتے ہیں
نرس نے آکر ماہ نور سے کہا تو ماہ نور بھاگتی ہوئ اندر گئ
سامنے حدیب بستر پر لیٹا تھا اور ماہ نور کو دیکھ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا
ماہ نور نے آگے بڈھ کر اسے سہارا دے کر بیٹھایا
ماہ نور مجھے معاف کر دو میں نے تم پر شک کیا میرا ایسا کوئی ارادہ نھیں تھا پلیز مجھے معاف کردو اور اپنی امی کو کہو کہ وہ بھی مجھے معاف کر دیں پلیز حدیب کی آنکھ سے ایک آنسو گرا
ماہ نور میں تمہارے لیے ایک نیا گھر لو گا پلیز میرے ساتھ چلو
بلکل نھیں ہماری بہو ہمارے ساتھ ہمارے گھر رہے گی
کیا یہ آپ دونوں کہہ رہے ہیں حدیب نے بے یقینی سے کہا ہاں ہمیں معاف کردو بچو آنٹی کیسی باتیں کر رہی ہیں ماہ نور نے ان کے گلے لگاتے ہو ے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Six month letter
. ..... ....
اممی ماہ نور ابو کہا ہیں آپ سب
کیا ہوا کیوں چلارہے ہو
امی میری پروموشن ہو گئ ہے اور مجھے اگلے ہفتے کپنی کی طرف سے دوبئ بیجا جا رہا ہے ہے لیں مٹھائی کھایں
حدیب نے سب کو اپنے ہاتھوں سے مٹھائی کھلائی ےآج سب بہت خوش تھے
۔۔۔۔۔
۔۔۔
۔ ظلم و ستم کے گہرے بادل
برداشت کی ہوا سے آخر چھٹ گئے